ناموں کی حقیقت ، طریقہ ، اور اہمیت
ناموں کی حقیقت ، طریقہ ، اور اہمیت
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ اسلام کو علم الاسماء سکھایا ، یعنی ناموں کا علم ۔۔۔۔ نام انسان کی زندگی میں بہت اہمیت رکھتا ہے اور اسی وجہ سے حضورکرام صلّی اللہ علیہ وسلم نے ایام جاہلیت کے مہمل نام تبدیل کروائے ۔ ترمذی میں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم برے ناموں کو بدل کر ان کے عوض اچھے نام رکھ دیا کرتے تھے ۔ (ترمذی111/2)
نام آپ کی زندگی کا وظیفہ ہوتا ہے کیونکہ وہ بار بار پکارا جاتا ہے ۔ اگر آپ اپنے نام کی نسبت سے کام کرینگے تو آپ کئی گُنا اضافی ملے گا اور اگر آپ کے مخالف چلیں گے توآپ ایک ناکام زندگی گزار کر جائینگے ۔ میں یہاں چند مثالیں دے کر آگے چلتا ہوں ۔
سید قاسم ۔۔۔۔۔ قاسم کے معنی تقسیم کرنے والے کے ہوتے ہیں اور محمود کےمعنی تعریف انھوں نے بہت سے انسائیکلوپیڈیاز پر کام کیا جن میں پاکستانیکا، قرانیات قابل ذکر ہیں چونکہ اپنے نام کی نسبت سے کام کیا لہذا بہت نام کمایا ۔
محمد علی ۔۔۔۔ محمد(میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ) کے معنی جس کی بے انتہا تعریف کی جائےاور علی بھی اسم حسنہ معنی بلند ، بزرگ ، اور آپ محمد علی جناح کو تو جانتے ہی ہیں۔
میں اس طرح بے پناہ مثالیں دے سکتا ہوں لیکن میں وضاحت پر زیادہ وقت دینا چاہتا ہوں ۔ مندرجہ بالا مثالوں کےبعد چند منفی رحجان والے نام بتانا چاہونگا قاروی ، معنی خاندبدوش یعنی یہ کسی ایک مقام پر خوش رہ ہی نہیں سکے گی۔ صبوحی معنی خمار دور کرنے والی، صبح کی شراب یعنی یہ اسقدر سخت اور کڑ وی ہے کہ صبح کی تمام سستی دور ہو جاۓ گی۔ معنیٰ کے ساتھ ساتھ ہمیں اس بات کاخیال رکھنا چائیے کہ نام کا تلفظ ایسا ہو جو کسی خراب معنی سے ملتا جلتا نہ ہو جیسے’ سحر ‘ اسکا معنی صحیح تلفظ ہوتو معنی’صبح’ اور صحیح تلفظ نہ ہو تو معنی جادو ۔۔رمیز معنی بزرگ اور تلفظ کی تبدیلی سے رمیض معنی تیزچھیری۔
نام سے متعلق چند اہم نکات جنہیں سوچنا تو بہت زیادہ ضروری ہے وہ درج زیل ہیں :۔
1-عبدالحمد،عبدالنبی، عبدالزاہد اور عبدالمطلب جیسی تراکیب غلط ہیں ۔ کہ مرکب نام کےمعنی ہوں گے ، محمد نبی ، زاہد اور طالب کرنے والے کا بندہ ۔ جبکہ بندہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا ہوتا ہے ۔ صرف اسمائے حسنہ کے ساتھ’ عبد‘لگاکر نام مکمل کرنااحسن ترکیب ہے۔
2- مناف ۔۔۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پردادا کے نام کے علاوہ ، ایام جاہلیت میں کسی بت کا نام بھی تھا ۔ پھر یہی نام کسی شاتم ، رسول شاعر کا بھی تھا جسکا تخلص خطل تھا۔ اس نام سے اجتناب لازم ہے ۔
3- محمد جمشید اور محمد پرویز جیسی تراکیب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اور اسلام تاریخ سے ہماری عدم رغبت کا ثبوت ہے ، کون نہیں جانتا کہ فارس کا حاکم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوت نامہ کی توہین کا مرتکب ہوا۔ محمد، احمد ،علی اور رحمٰن کے ساتھ پرویز اور جمشید لگانا مناسب نہیں۔ جمشید اور جیسے نام کسی دوسری ترکیب سے رکھے جاسکتے ہیں ۔
4- ناموں کے مرکب بناتے ہوٗے ٔبھی بہت خیال رکھنا ہوتا ہے اگر دولفظی نام رکھا جارہا ہو اور دونوں ناموں بامعنی جوڑتے نہ ہو ں تو ایسے شخص کی فطرت دو غلی ہو جاۓ گی جو خطرناک ہے مثال کے طور پر سندس ،رمشہ ، اس میں سند س کے معنی باریک ریشمی کپڑا اورمشہ کے معنی پھولوں کا گلدستہ ہے جس کو ربط نہیں ہے ۔ لہذا اس بچی میں دوغلہ پن رہے گا۔
5-ناموں کو بہت بڑھا نایا طویل بھی نہیں کرنا چاہئے۔ اس سےشخصیت ٹوٹ جاتی بکھر جاتی ہے۔ جیسے اطہر محمد شہزاد اقبال یا پھرحذیفہ ولی الدین اب ان میں ترتیب بنا نا کہ کچھ معنیٰ بنیں شاید بہت ہی زیادہ مشکل ہے کئی نام جب دوسری زبانوں سے عربی اور اردو میں آئے تو ان کا تلفظ بھی بدل گیا۔ لہذا اس کا بھی خاص خیال رکھنا ہے کہ اُسے کس تلفظ کے ساتھ لکھا جائے گا۔ جیسے آپ ‘زنوبیا’ کولے لیں جیسے لوگ کئی انداز سے لکھتے ہیں لہذا ایسے نام جب غلط لکھےجاتے ہیں تو انکا کوئی معنی نہیں رہتا لہذا ایسا شخص ہر وقت Confuse رہتا ہے۔
جب ناموں پر اتنی باتیں لکھ رہا تھا تو سوچا کیوں نہ وزن بھی بتا دیا جائے اِسے مثال سے سمجھا نے کی کوشش کرتا ہو ں جیسے اللہ تعالٰی رحٰمن بھی ہیں اور رحیم بھی۔ دونوں کا مادہ ‘رح م’ ہے ۔ لیکن رحمٰن کا وزن ہے “فَعلَا نُ” اس وزن پر جو بھی ہو گا اس میں جوش وخروش ہوگا ۔ جیسے عَطشاَنُ کے معنی ہیں شدید پیا سا اور جَو عَانُ کے معنی ہیں بہت بھوکا جبکہ رحیم کا وزن ہے فعیل، جس کے معنی ہیں وہ ذات جس کی رحمت پہیم ہورہی ہےجس کی دائمی رحمت کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوتا تو اس سے واضح ہوا کہ نام رکھتے ہوئے وزن کا بھی خیال رکھیں ۔‘اُسامہ’اسد’حیدر’باقر’زیغم’حمزہ’عباس’شبل’غیال’اور مربل’ کے ناموں کواگر لیں تو ان سب کا معنی ہوتا ہے شیر لیکن ان کے وزن کو دیکھ کر بتایا جاسکتا ہے کہ
کون سا شیر؟ سرکس کا یا جنگل کا ۔۔۔۔۔۔
اردو میں ایک اندازے کے مطابق %45فیصد عربی % 30 فارسی ، %10 ہندی اور% 15 ترکی و انگریز ی کے علاوہ دیگر زبانوں کےنام ملتے ہیں جیسا کہ آپ نے اوپر دیکھا کہ ہم نے شیر کو بھی اپنا نام رکھا تو اسی طرح اور بھی کئی جانور ہیں جو کہ ہم نے نام کے طور پر پسند کئے مثال کے طور پر فہد، اویس ، فہیم بمعنی چیتا ۔۔۔۔ حسان ، خیل ، فرس بعمنی گھوڑا ۔۔۔ بکر بمعنی جوان اونٹ ۔۔جمل بمعنی اونٹ ۔۔۔ذر، نملہ بمعنی چیونٹی۔۔غنم بمعنی بکر ۔۔۔عجلہ بمعنی بچھا۔۔ ناقہ بمعنی اونٹنی۔۔۔ کلب بمعنی کتا۔۔۔ ۔۔غراب بمعنی کوّا ۔۔۔شاہین بمعنی شکرہ۔۔۔ یہ تو میں نےچند ایک گنوائے ہیں ۔اگر آپ اردگردنگاہ دوڑائیں تو آپ کو کئ نام چرند ،پرند درند، اور حشرات الررض پر ملینگے ۔ اسی طرح کنیت کی صورت میں بھی ہے مثلاً ابوفراش ، ابو الحارث (شیر ) ابو جعد (بھیڑیا) ، ابوسلمیٰ( گرگٹ) ، ابو ہریرہ (بلی والا) ابو عوف(ٹڈہ) ابو ایوب (اونٹ )۔۔۔ شامل ہیں ۔
اگر ہم ناموں پر غور کرتے ہوئے آگے چلیں تو بہت سے اہم ناموں کے بائبلک تلفظ سے ملتے جلتے ہیں مثلا Adamآدمؑ ، Nooh نوحؑ،Davidداؤدؑ، Issac،اسحقؑ ،Abraham،ابرہیم ؑ ، Jonah ، یونسؑ، Jacob،یعقوبؑ،Jeosaph ،یوسفؑ ، ٍSolemon ، سلیمان ؑ، Moses ،موسیؑ ،Mary مریمؑ،Hagar،ہاجرہؑ، Michaelمیکا ئیلؑ ، ٍSamson شمعونؑ اور George ،جرجیسؑ وغیرہ کے نام ملتے ہیں ۔ جن سے مذہب کا تعین مشکل ہو جاتا ہے اور تلفظ کی تبدیلی سےنام بھی بدل جاتاہے۔
یہاں اچانک ایک خیا ل آگیا جسکا بتانا نہایت ضروری ہے کہ نام ہمیشہ پورا پکا رہ جائے خاص طور پر اسمائے حسنہ جیسے عبدالرحمن کو صرف رحمن کہنا غلط ہے اور عبدالحکیم کو صرف حکیم کہنا غلط ہے اور جاہل تو حکمیوں تک کہہ جاتے ہیں جس سے کہنے والا اور رشتے والا دونوں گنہگار ہوتے ہیں لہذا اپنی عادت بنا لیں کہ پورا نام پکاریں اور دوسروں کو بھی اس بات کی تلقین کریں۔
آپ کابچہ آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہے جتنی محنت سے آپ اسکا نام رکھیں گے اس قدر اس کےحق میں اور آپ کے حق میں بہتر ہوگا ۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن ابی طلحہ کو لے کر جب رسول اکرام صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کھجو رہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کھجور لیا اوراس کو چباکر پھر اس کے منہ میں ڈالا ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے ان کا نام عبداللہ رکھا ۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے رسول اللہ سے روایت کی ہے کہ سب سے زیادہ پسندیدہ نام اللہ تعالیٰ کے نزدیک عبداللہ اور عبدالرحمن ہے ۔ ( ترمذی 11/8 ) جب منذر ابی اسیدؓ پیدا ہوئے تو ہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم علیہ وسلم کی خدمت میں لائے گئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی گود میں لیتے ہوئے دریافت فرمایا کہ اسکا نام کیا ہے؟ جواب ملا کہ اسکا نام فلا ں ابن فلاں ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کہ نہیں اسکا نام منذر ہے اس دن سے اسکا نام منذر ہوگیا ۔ (بخاری شریف)
اللہ تعالیٰ آپ کو اور ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنے آنے والی نسلوں کے نام درست اوراحسن انداز سے رکھ سکیں۔
آمین ثم آمین