Istikhara – definition and steps

تعریف: نیکی کی توفیق مانگنا

’ اصطلاح شرع میں کسی بات کے کرنے نہ کرنے میں ایک خاص طریقہ پر اللہ تعالیٰ سے اشارہ چاہنا۔ استخارہ کہلاتا ہے‘

اللہ تعالیٰ سورۃ آل عمران میں فرماتے ہیں کہ

                                    ’۔۔۔ تو ان سے درگزر کرو ان کے لئے استغفار کراور کام کا مشورہ ان سے کرلیا کر پھر جب تیرا پختہ ارادہ ہو جائے تو اللہ پر بھر وسہ کر۔ بے شک اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

اور خدا تمہارا مددگار ہے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو پھر کون ہے کہ تمہاری مدد کرے اور مومنوں کو چاہیئے کہ خدا ہی پر بھروسا رکھیں ‘‘

                                                                                                160-verse:159

مندرجہ بالا آیات کی جب تفسیر بیان کی جارہی ہوتی ہے تو بتایا جاتاہے عقلمند لوگوں سے مشورہ کرنا چائیے اور پھر ماننا بھی چائیے ہے۔ لہذاگر آپ نے اپنا رہبر اللہ تعالیٰ کو بنایا ہوا ہے۔ تو پھر وہ اپنے پر توکل کرنے والے کو نہ صرف دوست رکھتا ہے بلکہ اس پر کسی کو غالب بھی نہیں آنے دیتا۔۔۔ تو پھر جب مشاورت کی بات ہو تو کسی اور سے کیوں صرف اللہ تعالیٰ سے ہونی چاہئیے۔

اہمیت و فوائد:

یہ بات بھی ذہن میں رکھیئے کہ استخارہ واجب نہیں ، لیکن مستحب ضرور ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:

‘’ ابن آدم کی سعادت میں سے ہے اسکا راضی ہونا اس چیز کے ساتھ جسکا اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے فیصلہ فرمایا، ابن آدم کی بدبختی سے ہے اسکا اللہ تعالیٰ سے استخارہ کو ترک کردینا، اور ابن آدم کی بدبختی میں سے ہے اسکا اللہ تعالیٰ کے قضاوقد ر کے فیصلے سے ناراض ہونا۔‘‘

                                                                        ( مشکوٰۃ ص :53براویت مسند احمدوترمذی)

ایک اور مقام پر آپؐ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ

      ’’اللہ سے استخارہ کرنا ابن آدم کی سعادت میں داخل ہے، اور اسکا اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرنے کو ترک کردینا اس کی شقاوت میں داخل ہے۔‘‘

                                                                        ( مستد رک حاکم ج: ا  ص :18)

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے کہ

’ استخارہ کرنے والا کبھی نامراد نہیں ہوتا اور مشورہ کرنے والا کبھی نادم نہیں ہوتا اور کفایت سے کام لینے والا کبھی کسی کا محتاج نہیں ہوتا۔‘                                    (طبرانی )

اکثر پوچھا جاتا ہے کہ استخارہ کن معاملات میں کرنا چاہئیے؟

تو اسکا جواب یہ ہے کہ زندگی کے ہر جائز معاملے میں یعنی

  • سفر، نکاح ، ملازمت،
  • تجارت، خریدوفروخت، اور
  • وہ سب کچھ جس میں آپکا تعلق ہو۔

امام بخاریؒ  کے بارے میں  بتایا جاتا ہے کہ حدیث کی تمام تحقیق کے بعد لکھنے سے پہلے وہ تازہ غسل کر کے دو رکعت حاجت نفل پڑھکر لکھا کرتے تھے تاکہ اللہ تعالیٰ کا مشورہ بھی شامل رہے۔

استخارہ کے غیر شرعی طریقے:

دوسرا سوال لوگوں کی طرف سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ استخارہ کس طریقے سے کیا جاتا ہے؟ اس سے متعلق لوگوں نے بہت سے جہالت کے طریقے نکالے ہوئے ہیں۔ مثالاَ

  •  کوئی سورت پڑھکر صراحی پر پھونکنا اور اسکا گھومنا،
  •  کسی سورت کا کثرت سے پڑ ھنا اور گردن کا گھومنا،
  •  تسبیح پر کسی سورت کا کثرت سے پڑ ھنا اور اسکا گھومنا،
  •  طوطے یا کسی جانور سے پوچھنا،
  •  رمل، جفر، علم الاعداد کا سہارا،
  • قرآن کھول کر آیات سے معنی نکالنا، موکل سے پوچھنا،
  •  جن کو حاضر کرکے پوچھنا۔۔۔
  •  اور اسطرح کے کئی جہالت پرکئی مبنی طریقے ہیں

لیکن چونکہ ان سے کوئی ایک طریقہ بھی میرے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ثابت نہیں ہے لہذا  ان کے نتیجے پر کامل یقین کرنے والا گنہگار ہوگا اسے توبہ کرنی چاہئیے۔

استخارہ کے مسنون طریقے:

اگر ہم حضوراکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی پر غور کریں تو ہمیں تین مسنون طریقے استخارے کرنے کے لئے ملتے ہیں !

(۱)  مکر وہ اور حرام اوقات کے علاوہ جب بھی چاہیں دو رکعت نفل ادا کیجیے اور پھر درج ذیل دعا پڑ ھیں

 ( روایات حضرت جابرؓ ، بخاری)

اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك و أسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر و لا أقدر و تعلم و لا أعلم و أنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني و معاشي و عاقبة أمري او عاجل أمري و آجله فاقدره لي و يسره لي ثم بارك لي فيه و إن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني و معاشي و عاقبة أمري أو عاجل أمري و آجله فاصرفه عني واصرفني عنه واقدر لي الخير حيث كان ثم أرضني به

ترجمہ:          

’’ خدایا! میں تجھ سے تیرے علم کے واسطے سے خیر کا طلب گار ہوں اور تیری قدرت کے ذریعے تجھ سے تیرے عظیم فضل کا سوال کرتا ہوں ، اس لئے کہ تو قدرت والا ہے،  اور مجھے ذرا قوت نہیں ۔ تو علم والا ہے اور مجھے علم نہیں اور تو غیب کی ساری باتوں کو خوب جانتا ہے۔

خدایا! اگر تیرے علم میں یہ کام میرے لئے بہتر ہے میرے دین و دنیا و معشیت کے لحاظ سے اور انجام کے لحاظ سے تومیرے لئے اسے مقدر فرما۔ اور میرے لئے اس کو آسان کر اور میرے لئے اس کو مبارک بنادے۔ اگر تیرے علم میں یہ کام میرے لئے برا ہے، میرے دین اور دنیا کے لحاظ سے اور انجام کے لحاظ سے تو اس کام کو مجھ سے دور رکھ مجھے اس سے بچائے رکھ اور میرے لئے خیر اور بھلائی مقدر فرما جہاں کہیں بھی ہو اور پھر مجھے اس پر راضی اوریک سو فرمادے۔”

اور پھر آپ کا جس جانب رجحان بنے ان شاء اللہ وہی بہتر ہوگا۔

 یہاں ایک نکتہ میں اور بیان کرنا چاہونگا کہ کبھی کبھی آپ کسی دکان پر سے کچھ خریدوفرخت کررہے ہوتے ہیں اور فیصلہ نہیں کرپارہے ہوتے تو اس و قت دو رکعت نفل کا وقت بھی نہیں ہوتا تو علماء کا مشورہ ہے کہ بس اللہ تعالیٰ کا کلام پڑھکر اللہ تعالیٰ سے رجو ع کرلیںتو جو بھی فیصلہ ہوگا بہتر ہوگا۔

(۲) حضرت یونس علیہ سلام، جنھیں بستی نینواکی طرف ، اللہ تعالیٰ نے نبی بناکر بھیجا ۔۔۔ جب ایک دفعہ واقعہ کے بعد وہاں سے چل کر ایک کشتی میں سوار ہوئے آگے جاکر طوفان کے آثار نمو دار ہوئے قریب تھا کہ کشتی ڈوب جائے مشورہ یہ ہوا کہ کسی آدمی کو دریا میں ڈال دینا چایئی۔ کہ وزن کم ہو جائے قرعہ حضرت یونس علیہ سلام کے نام کا نکلا لیکن کسی نے آپ کو دریا میں ڈالنا پسند نہیں کیا دوبارہ قرعہ اندازی ہوئی آپ ہی کے نام نکلا تیسری بار پھر قرعہ ڈالا اب کی مرتبہ بھی آپ ہی کا نام نکلا اور پھر آپؑ کھڑے ہوگئے اور کپڑے اتار کر کود پڑے۔

                                                                        (تفسیر سورہ الانبیاء آیات88-87)

تاریخ بتاتی ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سفر کا ارادہ کرتے تو ازواج مطہرات کے درمیان قرعہ ڈالتے ۔ جس کے نام قرعہ نکل آتا وہی ساتھ جاتیں ۔ پھر کسی کے لئے عذر نہ رہ جاتا۔

مندرجہ بالا حدیث فعلی سے ہمیں اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ استخارے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے اور طریقہ  نمبر(۱) سے ہمیں اس کے بھی دو انداز ملتے ہیں پہلا تو وہ ہی طریقہ ہے یعنی دور رکعت نفل حاجت پھر دعائے استخارہ پھر قرعہ اٹھالیا جائے۔ جبکہ دوسرے طریقے میں پاکی ، طہارت اور وضو کے بعد ۱۱ دفعہ درود شریف، ۱۱ دفعہ سورۃ فاتحہ، ۱۱ دفعہ سورۃ اخلاص، ۱۱ دفعہ استغفار، اور ایک دفعہ استخا رے کی دعا کر کے قرعہ اٹھایا جائے تو ان شاء اللہ اس میں اللہ تعالیٰ کی رضا شامل ہوگی۔

قرعہ کا طریقہ سیکھنے میں آپ کو قرعہ بنانا سیکھنا پڑے گا۔ اسے میں چند مثالوں سے سمجھانا چاہونگا۔

*           اگر کسی شئے کے لینے نہ لینے کا قرعہ ہے تو صرف ہاں اور ناں کا قرعہ بنے گا۔

*           اگر دو لڑکیوں میں سے کسی ایک سے نسبت ہو تو یہا ں دو قرعے تو ان کے ناموں کے بن گئے اور تیسرا قرعہ بنے گا ‘کوئی اور’، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ یہ دونوں ہی بہتر نہ ہو۔

*           اگر ایک سے زائد سوالات ہوں تو ان کی ترتیب بنانی پڑے گی اور ہر سوال کے لئے تازہ پڑھائی ہوگی اور نئے قرعہ بنائے جائینگی۔

*           جو کام شریعت میں ممنوع ہیں ان کا استخارہ نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح قرعہ پر بھی کوئی غیر شریعی بات نہیں لکھی جاسکتی۔ مثلاَ گانا، بے حیالباس، برائی کی جگہ جانا، سودی کاروبار وغیرہ۔

*           قرعہ نکالنے والا نمازی اور پرہیز گار ہو اور حقوق العباد کا خیال رکھنے والا ہو اور جھوٹ سے بچتا ہو تب بہت بہتر ہے لہذا اس کے اس عمل میں شیطان کا عمل دخل نہیں ہوگا۔

*           اگر کسی دوسرے کی طرف سے استخارہ کرنا ہو تو اس سے باقاعدہ اجازت لینا ضروری ہے۔

*           جو optionsہوں استخارہ سے پہلے انھیں ترتیب سے لکھ کر باآواز بلند 3دفعہ پڑھ لیں تاکہ دماغ میں جو خواہش کا غلبہ ہے وہ مٹ جائے۔

(۳)        اگر آپ اپنے آپ کو ہمیشہ پاک و صاف و طہارت میں رکھیں اور باوضو رہنے کی کوشش کریں تو عام نمازو ں کے ساتھ ساتھ ، حقوق العباد کا خیال بھی رکھ سکتے ہیں اور جھوٹ سے بھی بچ سکتے ہیں اور مسلسل زکر وازکار میں بھی رہ سکتے ہیں لہذ ا اگر آپ ایسی زندگی گذاررہے ہیں تو آپ ہر کام سے پہلے جب اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرینگے تو وہ ان شاء اللہ استخارہ ہی ہوگا۔ یہ بزرگوں کی ، نیک لوگو  ں کی، اللہ والوں کی، نبیوں کی صحبت میں، بیٹھنے والوں کی عادات واطوار میں سے ہے۔

مندرجہ بالا تمام معلومات میں سے جو براہ راست کتب سے لی گئیں ہیں تو انکا حوالہ تو دیا جارہا ہے اس کے علاوہ جن کا حوالہ نہیں ہے دراصل وہ ہزاروں کتب پڑ ھنے اور اپنی 24سالہ روحانیت کی مشقتوں سے اخذ کردہ ہے لہذ ا آپ ان باتوں پر اعتراض بھی کرسکتے ہیں اور آپ اس بات کا بھی حق رکھتے ہیں کہ ان باتوں کو جو میرے دماغ سے ترتیب شدہ ہیں بالکل ماننے سے انکار کردیں، لیکن میں یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ اسے لکھنے میں سچی و خالص نیت شامل ہے بقیہ اللہ تعالیٰ سے ہماری دعا ہے کہ وہ ہمیں ہدایت کے راستے پر رکھے اور اس راستے سے بچائے جس پر اللہ تعالیٰ کا غیض و غضب و غصہ ہے۔

                                                                        آمین! آمین! آمین

نوٹ: استخارے پر لیکچر http://kunworld.com پر سننیں